خیال

‏مجبوری دیمک ہے
رشتوں کو ادھورا کرتی
خالی ، کھنکھناتی در و دیوار
سایہ
اور
میں
~

اچھی ہے
پر
مجھ جیسی نہیں
~

‏بچھڑنا ضروری نہیں واجب ہے
~

‏سگنل کے کھمبے سے ٹیک لگاے
وہ ایک عرصے سے کھڑا ہے شاید
~

کہیں رات ڈھونڈتی ہے کنارے اور تم
میری شب کو بجھانے بڑھتے ہو
~

‏میرے حال، میرے حالات سے مختلف ہیں مگر
تم بتدریج احساس دلاتے ہو مجھے

میرے ساتھ نہیں جلنا سو نہ چلو
مجھے وقت کے ریلے میں بے وقت تو نہ کہو

Scroll to Top