خطوط

آج تمہارا خط آیا

بہت تکلیف ہوی

اتنی کہ سانس آتے آتے رک گیا
میں تھم گئ
مگر
اس زندگی میں چلنے کی شرط ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جاے کہ تم کسی بھی طرح میرے خالی پن کے مدعی  نہیں تھے
کیونکہ میرا ادھورا پن تو وہ زخم ہے جو میرے مالک، میرے  رازق نے میری تقدیر بنا کر مجھے اس جہاں میں بھیجا
اور میں۔۔۔ نادان سمجھی تم مجھے اس سب سے دور لے جاؤ گے
پاگل میں, پگلی ۔۔۔
نصیب ماتھے پہ  لکھی وہ لکیریں ہیں جو مٹاے نہ مٹے۔۔۔
تم میری زندگی میں وہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کے آے کے جس نے میرے چہرے کے پیچھے چھپی عورت کو چھوا
اور میں کھل اٹھی , بے رنگ تھی اور  تم نے رنگ بھر دیے ۔۔۔ پھر دن کا ہر لمہا چمک اٹھا ، دمک اٹھا اور میں سمجھی جیسے میں زندہ رہوں گی ۔۔۔ ہمیشہ ۔۔۔
بتاو کیسے ہم اپنے اپنے مفہوم ڈھونڈھ لیتے ہیں!!
دیوانہ وار
اندھا دھن
کھلنے لگے
جینے لگے
ابھرنے لگے
خوبصورت تھا
بے موسم تھا
ہمارا تھا
میرا تھا
جیے جانے کی شرط میں
جیے جاتے ہیں
مرتے جاتے ہیں
خط کا جواب لکھا ہے مگر بھیجا نہیں
سورج کی کرنین
آنگن میں بجھتی ہیں
سمٹ جاتی ہیں
اور میں دل کی خواہش کو اسی دن و رات کی مسافت میں ڈھال دیتی ہوں
تمھاری

#myworld

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top